انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کا نام زندگی ہے، جس دوران اس کی زندگی میں مختلف واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں ہزاروں خوشیوں سمیت ہزاروں غم بھی شامل ہوتے ہیں، اسی زندگی کے دوران وہ بہت سے ارادے اور فیصلے بھی کرتا ہے، ان پر عمل بھی کرتا ہے اور بعض اوقات فیصلہ کرنے کے باوجود ان سے بھی پیچھے ہٹ جاتا ہے، انسان خطاوں کا پتلا ہے اور درد دل انسان بھی، وہ اتنا تجربے کار بھی ہوتا ہے کہ اپنی زندگی میں سامنے والے شخص کی پریشانیوں کو لمحوں میں پرکھ لیتا ہے اور کبھی کبھی وہ دنیا سے بیگانہ رہ کر ہی اپنی زندگی بسر کرلیتا ہے۔
جوں جوں عمر بڑھتی ہے انسان کو یہ اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ زندگی اتنی اچھی نہیں جتنی اسے لگتی تھی، بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پریشانیوں سے لڑتے لڑتے ہی زندگی گزار دیتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو غم سہتے سہتے اس دہلیز پر آجاتے ہیں جہاں وقت سے پہلے ہی ان کی قوت مدافعت جواب دے جاتی ہے اور وہ بڑا غم تو کیا ایک چھوٹا سا غم بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ایک جانب جہاں وہ بہت بڑے فیصلہ ساز ہوتے ہیں پر ان کی زندگی میں ایک ایسا بھی وقت آتا ہے جب وہ ایک چھوٹا سا فیصلہ کرنے کیلئے 10 بار نہیں بلکہ ہزار بار بھی سوچتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں، زندگی انہیں وقت سے پہلے ہی تھکا دیتی ہے اور ایسی تھکن جو نہ کسی دوا، نہ کسی کی تسلی اور نہ ہی راتوں کی نیندوں سے جاتی ہے۔ بچپن سے جوانی، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپا انسان کو سب کچھ ہی سکھا دیتا ہے وہ سب کچھ جو شاید وہ کبھی سیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں مختلف قسم کے سبق سیکھنے کیلئے بڑھاپے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دنیا انہیں جوانی میں ہی بڑھاپے کی دہلیز پر لے آتی ہے، تو صحیح کہا ہے نہ حفیظ جالندھری نے کہ؛ ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں۔
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے زندگی میں ہم ایسے دنوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جب سب اچھا ہو یا پھر ہم خواب دیکھتے ہیں کہ اب کوئی پرابلم نہیں آئے گی اور سب مزے دار چلتا رہے گا یعنی جیسے کوئی جنت کا ماحول ہو، کوئی پریشانی نہ ہو. لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، زندگی میں چیلنج ضرور آتے ہیں، اونچ نیچ کا نام زندگی ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا جب چیلنجز آتے ہیں تو ہم ان کے نیچے دب جاتے ہیں ہماری شخصیت، جو ہمارے اندر طاقت ہوتی ہے وہ دب جاتی ہے کم ہو جاتی ہے یا ان مشکلات میں کہیں نہ کہیں کوئی امید چھپی ہوتی ہے کوئی موقع ہمارا منتظر ہوتا ہے جسے ہم ڈھونڈ نکال کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اپنے بچپن میں پریوں اور بادشاہوں کی کہانیاں سن کر ہم اسی زعم میں جینے لگتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سب اچھا ہے، لیکن گزرتے وقت اور تجربات کے ساتھ ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ ہر کہانی کا اختتام خوش آئند نہیں ہوتا، اور نہ زندگی اتنی خوشگوار اور ہموار ہوتی ہے جتنی ان کہانیوں میں معلوم ہوتی ہے۔
زندگی میں اچھے برے دونوں طرح کے دن آتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنے خوبصورت دنوں سے اسلیے بھی محظوظ نہیں ہوتے کیونکہ ہم ان لمحات کو چھوڑ کر مستقبل کے خوابوں کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں مثال کے طور پہ اپنے بچوں کی کامیابی سے متعلق خواب، یا اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک چھوٹا سا گھر بنانے کا خواب، ان خواہشات کی وجہ سے ہم اکثر اچھے وقت کو انجوائے کرنے سے محروم رہتے ہیں۔
حالانکہ ہم سے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ زندگی میں ہمیشہ خوشحالی رہے گی یا ہمیشہ برا وقت رہے گا. ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ زندگی میں سب کچھ ہرا بھرا رہے گا سب اچھا رہے گا، لیکن ایسا نہیں ہوتا. ہمیں اچھے برے دونوں طرح کے دنوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے، اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم کرائسس اور برے حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
جب آپکی زندگی میں پہلے سے ایک کرائسس ہو تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اس سے بطریق احسن نمٹا جائے نہ کہ اس میں الجھ کے اپنے لیے ایک سے زیادہ مشکلات پیدا کر لی جائیں۔
جذباتی پہلو کی بجائے منطقی پہلو سامنے رکھتے ہوئے معاملات کی سنگینی کو دیکھنا اور حل نکالنا چاہئے۔
بعض اوقات ہمیں اپنی زندگی میں معجزے کا انتظار ہوتا ہے، اور ہم اس انتظار میں اپنی خود کی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لاتے اور کسی مسیحا کا انتظار کرتے زندگی گزارنے لگتے ہیں، جیسا کہ کچھ خواتین یہ انتظار کرتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی شہزادہ سفید گھوڑے پہ بیٹھ کے آئے گا۔
ہمیں معجزوں سے امید رکھنے کی بجائے عملی طور پر کچھ کرنا چاہیے۔
زندگی کو بہتر اور بدتر بنانے والے دراصل ہم خود ہی ہوتے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی غلطیاں بعض اوقات ہماری لئے بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردیتی ہے جسے پار کرنے کیلئے ہماری پوری عمر لگ جاتی ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم مناسب انداز میں، زیادہ کی چاہ میں، خود کی ذات اور خاندان کو دوسروں سے موازنہ کرنے میں نہ نکال دیں بلکہ ہم اتنے ہی پیر پھلائیں جتنی ہماری چادر اجازت دیتی ہے تو زندگی اجیرن ہوگی اور نہ ہی بے سکون!۔
تحریر : حفصہ شاہد کلینکل سائکالوجسٹ
خیالات : ڈاکٹر صداقت علی