جب نشے کی بیماری سے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اہل خانہ کے وسوسے اور اندیشے حقیقت کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ جب ان کی زندگی کے تار و پود بکھرنے لگتے ہیں اور بلا نوش پھر بھی پینے سے باز نہیں آتا تو وہ اسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تکتے ہیں۔ بلانوش کے سامنے پوری طرح بے بس ہونے کے بعد وہ یہاں وہاں اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگتے ہیں۔ پچھلے 33 سال میں نشے کے مریضوں کے اہل خانہ کی مدد کرتے کرتے میری یہ رائے پختہ ہو گئی ہے کہ جب تک کوئی حقیقی بحران وجود میں نہیں آتا، اہل خانہ مدد کیلئے رجوع نہیں کرتے ۔ لوگ انہیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جب تک وہ مریض خود علاج کا خواہش مند نہیں ہوتا، آپ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے، جب تباہ و برباد ہو گا تو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
یہ ایک فرسودہ خیال ہے کہ برباد ہونے کے بعد ہی سدھرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، یہ فرسودہ خیال نشے سے متاثرہ خاندانوں کو اندھیرے میں دھکیل رہا ہے۔ نہ جانے لوگ کیوں یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ان کا مریض پستی کو چھو کر ہی بحالی کے راستے پر گامزن ہو گا؟ وہ ایک لمحہ رک کر یہ غور کرنا گوارہ نہیں کرتے کہ اس خیال میں پھنس کر وہ کس قدر سزا پاتے ہیں؟ پستی کی جانب یہ سفر کوئی نشے کا مریض اکیلا نہیں کرتا، اہل خانہ بھی ساتھ برباد ہوتے ہیں، گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے، تباہی کے ان راستوں پر معصوم بچوں کی زندگی بھی اجڑ جاتی ہے۔
مجبور ہو کر ایسا سوچنا تو کچھ نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے، شروع سے یہ ٹھان لینا کہ مریض برباد ہو گا تو خود ہی مدد کے لیے پکارے گا، کوئی مناسب بات نہیں، بربادی سے فلاح کی توقع رکھنا بے کار کی بات ہے، یہ خیال کہ تکلیفوں سے ہی مریض کا احساس جاگے گا، اذیت پسندی کا مظہر ہے۔ قرین مصلحت یہ ہے کہ تھوڑی بربادی کو تبادلہ خیالات کی صلاحیت اور لفظوں کے خوبصورت استعمال سے مریض کے سامنے یوں پیش کیا جائے کہ وہ تھوڑا کہے کو زیادہ جانے، تھوڑی بربادی کو زیادہ مانے اور مدد حاصل کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ نشے کی بیماری اہل خانہ کیلئے نت نئے مواقع پیدا کرتی ہے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مریض کی مدد کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل خانہ موثر کونسلنگ کے ذریعے ان موقعوں کو پہچاننا اور ان سے فائدہ اٹھانا سیکھیں۔
مریض کی بربادی کا انتظار کرنے کے پس پردہ یہی یقین کار فرما ہوتا ہے کہ جونہی وہ پستی میں گرے گا وہ نشہ چھوڑ دے گا یا پھر بھاگا بھاگا مرکز علاج منشیات پہنچ جائے گا۔ ایں خیال است و محال است و جنوں! نشے کے مریض اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں۔ وہ بڑی خوبصورتی سے لوگوں کو شیشے میں اتارتے ہیں اور اپنے نشے کی غرض سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بار بار مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور لوگوں کا استحصال کرتے ہوئے صاف بچ نکلتے ہیں۔ لوگ ان کی حرکات پر شک کرتے ہیں لیکن وہ اپنی حالت زار کا پتا نہیں چلنے دیتے۔ جب بھی کسی مشکل میں پھنستے ہیں منشیات ان کے کان میں تسلی بخش پیغام دیتی ہیں ’’فکر کی کوئی بات نہیں، میں ہوں ناں!‘‘۔
ایک دفعہ میں شراب کی بیماری سے بحالی پانے والے کچھ ’دوستوں‘ کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا۔ انہی میں ایک کی نشے سے بحالی کی پندرھویں سالگرہ تھی۔ وہ بھلا آدمی اپنی کہانی سنا رہا تھا کہ کس طرح وہ کئی سال تک ایک چھوٹے سے غلیظ کمرے میں جو حشرات الارض سے بھرا تھا کئی سال بلاناغہ شراب اوردیگر منشیات کا استعمال کرتا رہا۔ اس کی زندگی عبرت کا نمونہ تھی لیکن وہ عرصہ دراز تک اپنے آپ کو نشے کے استعمال سے روک نہ سکا۔ علاج سے قبل وہ کئی دفعہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا۔ میری دائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے اسے کہا، ’’بس! آپ تیار نہ تھے!‘‘ ایک اور صاحب بولے ’’وقت وقت کی بات ہے، ابھی سب کچھ کھویا نہ تھا‘‘۔ وہ کہنے لگے ’’بس قسمت میں ٹھوکریں تھیں ‘‘۔سب لوگوں نے اثبات میں سر ہلایااورمیں ہکا بکا رہ گیا ۔ میرے دائیں بائیں کھانا کھاتے ، خوش گپیاں کرتے دوست یہ سوچ رہے تھے کہ بحالی کیلئے اس بھلے آدمی کی زندگی کے چند خوبصورت سال ضائع ہونا ضروری تھے؟ میں نے اس سے پوچھا ’’جب آپ منشیات کی دنیا میں غرق تھے تو آپ کے اہل خانہ کہاں تھے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میری بیوی نے تو خلع لے لیا تھا اور بچوں نے کبھی پلٹ کر پوچھا ہی نہیں! انہوں نے اچھا ہی کیا، ایک طرح سے، میں باپ کہلانے کے لائق تھا بھی نہیں!‘‘ میں نے پوچھا ’’اگر آپ کے اہل خانہ اور دوست احباب مل جل کر آپ کے پاس بحالی کا ایک ٹھوس منصوبہ لاتے تو کیا ہوتا؟ کیاآپ محبت اور عزت کے ساتھ ملنے والی مدد قبول کر لیتے؟ کیا ایسا ممکن تھا کہ آپ جلد نشے سے نجات پا لیتے اور بیوی بچوں کیلئے کوئی بہتر صورت نکلتی؟ ہو سکتا ہے میاں بیوی کا رشتہ سلامت رہتا؟‘‘ اس نے لمحہ بھر کیلئے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا ’’میں نے پہلے کبھی اس پہلو سے سوچا ہی نہ تھا! کون جانے میں ان کی مدد قبول کر کے فلاح پا جاتا، ہو سکتا ہے میرا خاندان بکھرنے سے بچ جاتا!‘‘ اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو مجھے صاف نظر آ رہے تھے۔
سوچنے کی بات یہ ہے: کیا اہل خانہ کی بروقت مداخلت سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ بالکل پڑتا ہے۔ اگر ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات ہمارے طور طریقوں کو بدل دیتے ہیں تو ایک ماہر کی رہنمائی میں اہل خانہ کی قدم بہ قدم حکمت عملی بھی موثر ثابت ہوتی ہے۔
کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شراب کی پستیوں میں گرنے کے بعد زور دار طریقے سے ابھرے اور بلندیوں کو چھوئے؟ یقیناًایسا ہوتا ہو گا لیکن ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ان میں سے کون خوش قسمت اپنی جان بچا پائے گا اور اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ ہر روز پاکستان میں 200 لوگ پستیوں میں گرنے کے بعد زمین میں اتر جاتے ہیں، ان گنت جیل جاتے ہیں، پاگل ہو جاتے ہیں یا کہیں کے نہیں رہتے۔ خاندان بکھر جاتے ہیں، بچے ماں یا باپ یا دونوں کو کھو دیتے ہیں۔ رشتے ہمیشہ کیلئے پھیکے پڑ جاتے ہیں، تاہم ان میں سے کچھ بحالی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ راستہ دشوار ہوتا ہے لیکن آگے چل کرآسان ہو جاتا ہے۔ بہت سی چیزیں مریض کی کایا پلٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن اہل خانہ اور دوست احباب کا کردار اس میں لازوال ہے۔
تین سے زیادہ دہائیاں گزر گئیں، صداقت کلینک کے شب و روز گواہ ہیں کہ مریضوں کی زندگی میں بحالی و خوشحالی کا معجزہ برپا کرنے میں ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، صداقت کلینک سے مدد حاصل کرنے والوں میں سے 77% اہل خانہ اور دوست احباب کی کاوشوں سے آئے جبکہ 23% ایسے تھے جن کی زندگی میں بحالی کا چراغ اردگرد اکٹھی ہونے والی مصیبتوں اور ان کے اندر سے اٹھنے والے درد نے جلایااور وہ علاج کے لئے چلے آئے۔
علاج کیلئے بربادی کا انتظار کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے میرے پاس کہانیوں کے انبار لگے ہیں ۔
ایک 47 سالہ مطلقہ باہر کا پڑھا ہوا تین بچوں کا باپ جو اپنے ہی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے ،ہر وقت شراب کے نشے میں دھت اور چرس بھرے سگریٹ پیتا ہے، اہل خانہ اسے منہ نہیں لگاتے۔
ایک 24 سالہ نوجوان کو بھی میں قریب سے جانتا ہوں جس نے اپنی گرل فرینڈ کو کنگال کر دیا ہے، حتٰی کہ اس کی گاڑی بیچ کھائی اور کہا کہ گم ہو گئی۔ لڑکی رو دھو کر چپ ہو گئی، نشے کی بیماری کا سایہ جس پر پڑتا ہے وہ بھی روگی ہو جاتا ہے۔
پولیس نے ایک 72 سالہ بوڑھے کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر نیم برہنہ حالت میں دھت دیکھ کر ہسپتال پہنچایا۔ ہوش آتے ہی وہ ہسپتال سے غائب ہو گیا۔ نشے کی بیماری علاج کے لیے کھلتے ہوئے دروازے بند کرتی ہے۔
ایک باپ تین بچوں کے ساتھ شراب کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ بچے سکول سے سیدھا گھر جانا چاہتے تھے لیکن باپ ڈرائیور کو شراب کی تلاش میں یہاں وہاں جانے کے لیے کہہ رہا تھا حتٰی کہ بچوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
ایک 52 سالہ خاتون افسر نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر ایک ماں بیٹی کو گاڑی کے نیچے دے دیااور واپس مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ دونوں نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔ خاتون نے تین دن پولیس لاک اپ میں گزارے، اتفاقی حادثے کا مقدمہ درج ہوا، شراب میں دھت ہونے کا معاملہ گول کر دیا گیا، آپ جانتے ہوں گے کیسے؟
ایک نوجوان نے جو نشے میں دھت پارٹی سے واپس آ کر بستر پر اوندھے منہ گرا اور اپنی قے نگل لی اور سانس بند ہونے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کا ایک بھائی ایک سال پہلے ہیروئن کی بڑی مقدار سونگھ لینے سے موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔
یہ تمام کہانیاں ان خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے صدمے اور تکالیف بیان کرنے کے لیے ڈکشنری میں الفاظ نہیں ملتے۔ نشے کے مریضوں کے سنبھلنے یا علاج پر رضامند ہونے کیلئے کسی ان دیکھی بربادی کا انتظار ظلم ہو گا۔
بہت سی تکلیفیں تو وقتی ہوتی ہیں مگر جب نشے کے پروانوں کی زندگی میں بربادیاں مسلسل چل رہی ہوتی ہے وہ تب بھی نشہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سر پر مصیبت آن پڑے تو کبھی کبھی وقتی طور پر نشہ چھوڑ بھی دیتے ہیں لیکن جونہی معاملات کچھ ٹھنڈے پڑ جائیں پینا پلانا پھر شروع ہو جاتا ہے۔ منشیات سے متاثرہ دماغ نشے کو مسائل کی جڑ تسلیم نہیں کرتا، ذرا بحران کم ہو، دباؤ ذراہٹ جائے تو شراب ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ بن جاتی ہے اور ایڈکشن اپنے گھناؤنے روپ میں سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے، نشئی کے دل میں نشہ بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ مریض ہر مشکل میں نشے سے رجوع کرتا ہے توایک طرح سے وہ چوری چوری نشے کو خدا مانتا ہے۔
تاہم، یہ بھی سچ ہے کہ نشے کی بیماری اور دیگر علتوں میں مبتلا انسان اپنے پیار کرنے والوں کو تکلیف دینا نہیں چاہتے، وہ اپنے اندر اعلٰی صفات برقرار رکھنا چاہتے ہیں، بس ان سے ایسا ہو نہیں پاتا۔ کئی دفعہ تو انہیں اپنی حرکتیں سمجھ ہی نہیں آتیں۔ جونہی ان کی زندگی میں نشے کا غلبہ ہوتا ہے اور مصیبتیں چاروں طرف سے انہیں گھیرنا شروع کرتی ہیں، وہ ہر طرح ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے لیکن نشے کی بیماری کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی اور وہ ایک کے بعد دوسری مصیبت میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے مسائل ان کو گھیرے رکھتے ہیں۔
خراب روئیے، بے تکے فیصلے اور جذباتی اتار چڑھاؤ، یہ سب نشے کی بیماری کے شاخسانے ہیں جو کہ دماغ کو شکستہ اور روح کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ اہل خانہ کنفیوژ رہتے ہیں۔ وہ بالکل نہیں جانتے کہ ان کے پیارے کو کیا ہو رہا ہے؟ ان کے منہ سے اکثر نکلتا ہے کہ کب سدھرے گا یہ؟ لیکن نشے کے مریض خود سے نہیں سدھرتے کیونکہ ایڈکشن ان پر اپنا شکنجہ کستی رہتی ہے اور وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ جب میں کبھی نشے کے مریضوں کے دماغ میں جھانکتا ہوں تو مجھے وہ اس ادھیڑ بن میں نظر آتا ہے۔
’’ مجھے اپنا ہی رویہ سمجھ میں نہیں آتا، میں جو کچھ کرتا ہوں وہ اصل میں کرنا نہیں چاہتا۔ میں وہ کچھ کرتا رہتا ہوں جس سے میں نفرت کرتا ہوں۔ جو اچھے کام میں کرنا چاہتا ہوں وہ مجھ سے نہیں ہوتے اور جو برے کام میں نہیں کرنا چاہتا وہ میں کر گزرتا ہوں۔‘‘
قول و فعل کے اس کھلے تضاد کو درست کرنے اور اس معمے کو حل کرنے کیلئے رو دھو کر ایک شراب کے بیمار کے پاس آخری چارہ کار کیا ہے؟ ایک اور جام!
منشیات، شراب اور دیگر علتیں گھروں کا امن و سکون تباہ کر دیتی ہیں۔ علتوں میں مبتلا انسان اصلاح کی طرف پہلا قدم خود نہیں بڑھاتے، یہ بیڑہ ان سے پیار کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ علاج کا فیصلہ مریض کے ارد گرد صحت مند دماغوں سے ابھرتا ہے۔
منشیات کا استعمال بیمار اور لاچار کر دیتا ہے۔ یہ بیماری تباہ کن ہے۔ تاہم تسلی رکھیں یہ قابل علاج ہے۔ منشیات، شراب اور دیگر علتوں سے نجات کے کئی راستے ہیں۔
سب کو داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی، ایڈکشن کی ابتداء ہو تو مریض کا علاج میں آنا ضروری نہیں، اہل خانہ ٹریننگ کے ذریعے اپنے پیارے کو علت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ایڈکشن قدم جما چکی ہو تو مریض کو آؤٹ ڈور میں آنا پڑتا ہے۔ بیماری بہت پرانی ہو تو داخلہ ضروری ہو تا ہے، مریض میں علاج کی خواہش اور جذبہ کیسے پیدا کریں، آپ کو یہ سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ صداقت کلینک ایڈکشن کی بے مثال علاج گاہ ہے، جہاں کلائنٹس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور وہ اپنی زندگی کی تعمیر نو کر لیتے ہیں۔
آپ نے جس معجزے کا انتظار کیا، وہ اب آپ کا انتظار کر رہا ہے۔