لنک-19

نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا

آتیں رہیں کانوں میں المناک پکاریں……لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گم تھا

صبح کا سورج جب چمکتا ہے تو اُس کی تپش پپو کو مزید بستر پر لیٹنے نہیں دیتی۔ پپو گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے بارش کی خواہش کرتا اگرچہ اسے معلوم ہے کہ لاہور میں بارش اس کی مرضی سے نہیں ہو سکتی ویسے تو فیصل آباد بھی بارش اُس کی مرضی سے نہیں ہوتی تھی۔ یکایک اُس کے ذہن میں یہ خیال آیا ’’پپو! تو گھر سے بے فضول ہی بھاگا!‘‘ وہ ایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے بستر سے نکلتا ہے۔ وہ بے مقصد ہی گھر سے باہر نکل جاتا ہے اور منہ اٹھا کر سڑک کی ایک جانب چلنے لگتا ہے۔ گاڑیوں کے مسلسل شور نے ایک گونج پیدا کی ہوئی ہے۔

سڑک کے ایک طرف ایک چھوٹی سی دیوار گندگی کے ڈھیر پر ختم ہوتی ہے جس پر کھانے کی بچی کھچی چیزیں، دو پرانے بری طرح استعمال شدہ گدے اور خالی لفافے پڑے ہوئے ہیں۔ دو چوہوں کے بچے اس میں سے اپنی غذا حاصل کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور پھر وہ چند ہی منٹوں میں آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ آوارہ گردی کرتے کرتے پپو اچانک بلے قصائی کے اڈے پر پہنچ جاتا ہے۔ وہاں ناشتے کا بچا کچھا ڈھیروں کھانا پڑا ہے۔ پپو کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہی اسے غنودگی ہونے لگتی ہے اور وہ وہیں ایک بستر پر ڈھیر ہو جاتا ہے، شام ہونے والی ہے، سورج ڈھل چکا ہے۔

پپو اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے اور آنکھیں ملنا شروع کر دیتا ہے۔ تھوڑے فاصلے پر بلا قصائی پہلو میں ایک نئی لڑکی لئے بیٹھا ہے۔ اس لڑکی کی قسمت آج پھوٹنے والی ہے۔ ایک تنگ سا گندہ راستہ جو گھاس پر مشتمل ہے سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں جا ملتا ہے۔ اتنے میں ایک لڑکی جسے سب ’’شیرنی‘‘ پکارتے ہیں پپو کے پاس آتی ہے، وہ پپو کے ساتھ اگلے دن صبح سویرے موہنی روڈ پر لوگوں سے بھیک مانگنا چاہتی ہے۔ پپو شیرنی کے ساتھ چلنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے اور بہت خوش ہوتا ہے کہ اس طرح وہ بلے قصائی کے عتاب سے بچ جائے گا۔

شیرنی کا لوگوں سے مانگنے کا انداز پوتنی دا اور بجلی سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ اُن کو ہنساتی بھی ہے اورلوگ اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو بتاتی ہے کہ پپو کے گردے کا آپریشن ہونے والا ہے اس لیے اسی کو پیسے چاہئیں۔ پپو کے لیے شیرنی کے ساتھ بھیک مانگنا کسی ایڈونچر سےکم نہیں تھا۔
جب لوگ شیرنی سے آپریشن کے بارے تفصیل پوچھتے تو وہ کہتی کہ وہ تو ڈاکٹر اور مریض کا کھیل کھیل رہی ہے، حقیقت میں تو مقصد پپو کا پیٹ بھرنا ہے۔ اس پر کچھ لوگ تو ہنستے ہوئے گزر جاتے اور کچھ بھیک دے دیتے۔ ایک خاتون دس روپے دیتی ہے اور مزاحاً کہتی ہے کہ تم لوگ اچھی طرح نہا بھی لیا کرو کیونکہ تم دونوں سے بدبو کے بھبھکے اُٹھ رہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد دونوں کھانا کھانے لگتے ہیں۔ جب پپو اچھی طرح کھانا کھا لیتا ہے تو وہ شیرنی سے اُس کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن شیرنی اُس کو ٹال دیتی ہے۔ پھر وہ شیرنی سے نئی آنے والی لڑکی کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ وہ کون ہے؟ لیکن شیرنی رُکھائی سے جواب دیتی ہے۔ ’’اُس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، تم ذرا اُس سے دور ہی رہو۔‘‘ تمہاری ٹانگوں میں کوئی تکلیف ہے جو تم پر لڑکی کے پاؤں چاٹنے کیلئے تیار رہتے ہو؟ کل تم شبو کے بستر میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور آج تمہیں یہ چنگڑی پاگل کر رہی ہے؟

’’کیوں؟ پپوبے ساختہ بولتا ہے۔‘‘ تمہیں جلن ہوتی ہے، میں جسے چاہوں ملوں۔‘‘
’’تمہیں میرا پتا نہیں پپو جانی! میرا نام شیرنی ہے، میں کچا کھا جاتی ہوں اور ڈکار بھی نہیں مارتی! سمجھے؟‘‘ پپو چپ رہتا ہے اور شیرنی سٹرک کے دوسری جانب واقع جنرل سٹور کی طرف بڑھتی ہے۔ شیرنی اس سٹور سے قینچی چوری کرتی ہے اور اپنے بالوں کا ڈیزائن بناتی ہے۔

لوگ اب پپو کو پہچاننے لگتے ہیں اس لئے کہ وہ اب لاہور کی ’’جانی پہچانی شخصیت‘‘ اور چلتا پھرتا پرزہ بن چکا ہے۔ وہ زندگی گزارنے کے سارے گندے گُر سیکھ چکا ہے۔ بھیک مانگنا، ادھار مانگنا یا چوری چکاری کرنا، سب کچھ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔

جب شیرنی اور پپو دونوں واپس گوالمنڈی پہنچتے ہیں تو نئی لڑکی وہاں سے جا چکی ہوتی ہے۔ پپو اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتا تاکہ کوئی اُس سے پوچھ گچھ نہ کرے۔ اُس رات بھتہ وصول کرنے والوں میں بِلاّ قصائی پپو، دل والا، بھنگی، بھولو ڈنگر اور فوجا شامل ہوتے ہیں۔

ایک اجنبی بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیوقوفانہ انداز میں مزاحمت شروع کر دیتا ہے۔ بِلاّ قصائی سائیکل کی زنجیر سے اسے مارنا شروع کر دیتا ہے۔ پپو پریشان ہو جاتا ہے، وہ اس کام میں اُن کا حصہدار نہیں بننا چاہتا لیکن وہ طوہا و کرہاً برداشت کرتا رہتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بِلاّ قصائی ایک اور جوڑے کو دھر لیتا ہے اور اُن سے نقدی اور گھڑیاں چھین لیتا ہے۔ جیسے ہی جوڑا چلا جاتا ہے تو بِلاّ قصائی پپو اور باقی پانچ لڑکوں کی کھچائی کرتا ہے اور طعنہ دیتا ہے کہ وہ دور کھڑے ہیجڑوں کی طرح تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔

پھر بِلاّ قصائی ایک جگہ سے سفید پاؤڈر کی تھیلی خریدتا ہے اور پھر سب مل کر اُسے سونگھتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بِلاّ قصائی اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ کراچی سے آئے ہوئے نیوی کے دو لڑکے لگتے ہیں، وہ اُن کی جوتوں اور ٹھڈوں سے پٹائی کرتے ہیں۔ بِلاّ قصائی اپنے ساتھیوں کو ان نیوی کے لڑکوں پر بیٹھ جانے کو کہتا ہے جب کہ پپو اُن کے جوتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بائیں طرف والے لڑکے کے جوتے پپو کو اپنے سائز کے لگتے ہیں۔ اگلے روز بِلاّ قصائی گرفتار ہو جاتا ہے۔

حالات معمول کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔ پپو اور شیرنی میں دوستی ہو جاتی ہے، وہ دونوں مل کر بھیک مانگتے ہیں۔ شروع شروع میں پپو بہت بھوکا اور گندا رہتا تھا جبکہ اب اسے شیرنی کا ساتھ مل گیا تھا تو وہ روزانہ پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ نشہ بھی کرنے لگا۔ اب اُسے بوریت سے نجات مل گئی تھی۔ ایک تو نشہ کی حالت میں وقت تیزی سے گزرنے لگا، دوسرا اُسے اب بھوک بھی کم لگتی تھی۔

رات کے وقت ہر کوئی عیش کرنے مختلف جگہوں پر چلا جاتا تھا، کچھ بڑی عمر کے لوگ بھی وہاں آنے لگے تھے۔ خاص طور پر ایک دبلا پتلا، تھکاماندہ، آدھا گنجا ادھیڑ عمر شخص جسے سب ’چاچا‘ کہتے ہیں اکثر نظر آتا ہے۔ لڑکے ’چاچا‘ سے مختلف قسم کے سوال جواب کرنے لگے اور وہ بھی گوالمنڈی میں موجود ان کے اڈے پر روز آنے جانے لگا لیکن پپو نے چاچا کے ساتھ کوئی راہ و رسم نہ بڑھائے۔

پپو خاموشی سے شیرنی کے پاس بیٹھ جاتا ہے، پپو سوچتا ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، وہ اپنے خیالات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرے گا۔ اُس کو تنہائی میں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی کبھار آوارہ گردی کرنے نکل جاتا ہے تو اس کو ذہنی سکون ملتا ہے۔ایک آزادی کا احساس اسے مزہ دیتا ہے لیکن گھر کی یاد بار ہا اسے تڑپا دیتی ہے، لیکن اب وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ گھر کا رخ کرے۔ کبھی کبھی تو اسے اپنے آپ سے بھی گھن آتی ہے۔پپو تین دن بعد ایک پرس چوری کرتا ہے جس میں نقدی ہوتی ہے، جس سے پپو اور شیرنی گلچھڑے اُڑاتے ہیں اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک یہ ’’لوٹ کا مال‘‘ ختم نہیں ہو جاتا، شیرنی دل کھول کر اپنے لئے ’’شاپنگ‘‘ کرتی ہے۔ وہ شام کو تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، جیب پھر کنگلوں کی طرح خالی ہے۔ رات زیادہ ہونے کی وجہ سے پپو سوچتا ہے کہ اب بھیک مانگنے کا وقت گزر چکا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اب کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا چاہئے۔ دونوں نہاری ہاؤس میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ ذوق و شوق سے نہاری کھانے آتے ہیں اور ترس کھا کر بھیک منگتوں کو بھی اپنے پلے سے نہاری کھلا دیتے ہیں۔ دونوں کسی حاتم طائی کے انتظار میں نہاری ہاؤس کے کونے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اتنے میں شیرنی پپو کی توجہ باہر کھڑے چار اوباش نوجوانوں کی طرف دلاتی ہے۔

’’یہ تو انہی چار لڑکوں کا گینگ ہے جن میں سے ایک کا پرس لے کر میں بھاگا تھا۔‘‘ پپو اپنی رائے دیتا ہے۔ ’’یہ لوگ خواتین کے ساتھ ’اکھ مٹکا‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ پپو مزید تبصرہ کرتا ہے، ’’شیرنی! ذرا ایک طرف آ جاؤ کہیں ان لفنگوں کی نظر مجھ پر نہ پڑ جائے‘‘ اور اسی اثنا میں دونوں کی توجہ ان لڑکوں سے ہٹ جاتی ہے۔

اس دوران وہ دونوں کھڑکی میں سے ’نئی زندگی‘ کی ویگن کو گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
’’میرے لیے ’نئی زندگی ‘ والوں سے ایک سینڈوچ لا دو!‘‘ شیرنی پپو سے پیار بھرے لہجے میں استدعا کرتی ہے۔
پپو اُس کو بتاتا ہے کہ میں تھکا ہوا ہوں، ایک گھنٹے سے مسلسل پیدل چل رہا ہوں اور بڑی مشکل سے ابھی بیٹھنے کا موقع ملا ہے، ویسے بھی نئی زندگی والے ساتھیوں کیلئے کھانا نہیں دیتے، تمہیں خود جا کر اپنا حصہ لینا ہو گا۔
’’تمہیں اتنا خود غرص نہیں ہونا چاہئیے، بھیک کے پیسوں میں میرا حصہ بھی ہے۔‘‘ شیرنی جتاتے ہوئے کہتی ہے۔

پپو اٹھتا ہے اور سینڈوچ لینے چلا جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے یہی قربانیاں حقیقی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔ لنک-27 پرجائیے۔

انکار کرتا رہتا ہے اور اپنے پاؤں اٹھا کر میز پر رکھ دیتا ہے۔ لنک-28 پر جائیے۔