لنک-30
لنک-30
بھاگ پپو بھاگ
جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے
جمی اور پپو ایک ٹیکسی پر سوار ہوتے ہیں۔ فورٹ روڈ پر پہنچ کر ٹیکسی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹیکسی مشہور ریسٹورنٹ کُکوزڈین کے سامنے رُک جاتی ہے۔ یہ ریسٹورنٹ آج کل لاہور کی اشرافیہ میں بہت مقبول ہے۔
’’میرا ریسٹورنٹ میں جانے کا واقعی کوئی موڈ نہیں ہے‘‘ پپو دلبرداشتہ انداز میں جمی کو بتاتا ہے۔
’’ہمیں راوی کے پُل پر اُتار دو‘‘جمی ڈرائیور سے کہتا ہے۔
ڈرائیور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط سائیڈ سے کٹ مار کے مین روڈ کی طرف آ جاتا ہے۔ راوی پُل پر پہنچ کر جمی ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کیلئے کہتا ہے اور سلطان کے دئیے ہوئے پیسوں میں سے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ پپو ٹیکسی سے اُتر کر کھلے آسمان تلے آ جاتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا اُس کے دماغ سے سارا نشہ کافور کر دیتی ہے۔ نشہ اترتے ہی پپو کو سلطان کی حرکتیں یاد آنے لگتی ہیں اور وہ دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہنے لگتا ہے۔
تھوڑی دیر پیدل چلنے کے بعد وہ دونوں ایک بہت خوبصورت عمارت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ پپو نے یہ جگہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ایک خوبصورت باغ کے سامنے کھڑا پپو وقتی طور پر اپنا رنج بھول گیا ہے۔ جمی بتاتا ہے کہ یہ مشہورِ زمانہ مغل بادشاہ جہانگیر کا مقبرہ ہے۔ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُس عمارت کے پاس آ جاتے ہیں جو کہ سرخ پتھر اور سفید سنگِ مر مر کے امتزاج سے تعمیر کی گئی ہے۔
’’ ایک شوگر ڈیڈی پہلی دفعہ مجھے یہاں لے کر آیا’’جمی نے پپو کو بتایا‘‘اور یہاں اُس نے مجھے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا تھا۔ جب میرے ساتھ یہ سب ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ دنیا اتنی خوبصورت نہیں ہے جتنی کہ نظر آتی ہے۔‘‘ جمی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کر کے بتاتا ہے۔
’’کیا میں اپنی زندگی کی گندی حقیقت سے نکل کر پانچ منٹ کیلئے بھی اس خوبصورتی سے محظوظ نہیں ہو سکتا؟‘‘ پپو گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔
’’خیر جانے دو پرانی باتوں کو، یہ بندہ سلطان جس کے ساتھ تم آج کل رہتے ہو، اسے میں نے بھی برگر والی جگہ پر دیکھا ہے۔ کوئی بھی اس کے پاس تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ جب اس کا دل بھر جاتا ہے تو ہر چوزے کا دانہ پانی اُٹھ جاتا ہے۔ تمہیں بھی بہت سمجھداری کے ساتھ سب حالات کو سمجھنا ہے‘‘ جمی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔
وہ دونوں باتیں کرتے کرتے مینار کے بلند ترین حصے پر آ جاتے ہیں۔ اتنی اونچائی سے آس پاس کی آبادی کس قدر صاف و شفاف دکھائی دیتی ہیں، ’’پپو کہتا ہے‘‘، ’’انسانوں کے اجلے اور میلے پن کا پتا بھی صرف قریب آنے سے ہی چلتا ہے۔ اُن کی خوشبو اور بدبو بھی قربت میں ہی پہچانی جا سکتی ہے، دور کے ڈھول تو سہانے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’لگتا ہے ٹھوکروں نے ’’سیانا‘‘ کر دیا ہے جمی نے مسکرا کر پپو کی طرف دیکھا۔ ’’میری غلطی کو مت دہرانا، کیا تمہیں معلوم ہے جب انسان فورٹ روڈ پر اپنی زندگی کی پہلی’’ واردات‘‘ کرنے نکلتا ہے تو اپنے آپ کو کیا تسلی دیتا ہے؟‘‘ جمی پپو کو غور سے دیکھتے ہوئے خود ہی جواب دیتا ہے،’’ میرا کوئی گھر، کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور میری کوئی پہچان نہیں ہے اس لیے مجھے فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی مجھے کون سی نوکری ملنے والی ہے؟ میری قسمت میں بس یہی کام دھندے ہیں اور واردات کرنے کے بعد جو پیسے ملتے ہیں وہ اتنے بھی نہیں ہوتے کہ اُن سے کھانے کا بندوبست کیا جا سکے یا پھر کوئی ڈھنگ کا ٹھکانہ میسر آ سکے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کوئی نوجوان جب نشہ شروع کر دیتا ہے تو سب سے بڑی ضرورت خود نشہ بن جاتا ہے جو اسے کسی بھی حد تک گر جانے پر مجبور کرتا ہے۔ اسے ہر حال میں گھٹنے ٹیکنے کیلئے آمادہ کرتا ہے، اس لئے بندہ ایک ایک دن کر کے جینے لگتا ہے‘‘ جمی کے الفاظ میں پپو کو مکمل تصویر نظر آتی ہے۔
’’کبھی میں دل سے تمنا کرتا تھا کہ مجھے بھی کچھ مہینوں کیلئے کوئی شوگر ڈیڈی مل جائے تاکہ میں کچھ پیسے بنا سکوں اور جب وہ مجھے گھر سے نکالے تو میں اس قابل ہو چکا ہوں کہ اپنا خرچہ خود اُٹھا سکوں۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے اپنے من کی چاہت مل گئی۔ اُس کے ساتھ رہتے رہتے میں اپنی ہستی کو بھول گیا۔ میں نے اپنے تمام اچھے خیالات پسِ پشت ڈال دئیے۔ سارا سارا دن میں صرف شراب کے نشے میں دھت رہتا اور اس کا دل بہلاتا، پھر کچھ دنوں کے بعد جب اُس کا دل مجھ سے بھر گیا تو اُس نے مجھے بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا، میں پھر اسی جگہ واپس آ گیا جہاں سے وہ مجھے لے کر گیا تھا۔ ذلت کے وہ سارے دن جو میں نے اس کے ساتھ گزارے تھے ،اُن کا اجر کچھ بھی نہ تھا۔ میرے پاس سوائے تن کے کپڑوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں، ہم سوچتے کیوں نہیں ہم خود اپنے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں‘‘ جمی پپو کی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اُٹھا رہا ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے دونوں ہی دکھی نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر باتوں کا رُخ اس جانب مڑ جاتا ہے کہ آخر اب کیا کیا جائے؟
’’ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو پہلے ہمارے ساتھ سڑک پر تھا۔ پھر اس نے ٹی وی اور فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور ہزار روپے روزانہ اور کبھی اس سے بھی زیادہ کمانے لگا‘‘ جمی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پپو کو بتاتا ہے۔
’’ہزار روپے روزانہ۔۔۔‘‘ پپو حیرانی سے پوچھتا ہے۔’’میں بھی ایکسٹرا بننا چاہتا ہوں‘‘ پپو نے التجا کی۔
’’یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، جب کھانے پینے کا خرچہ اتنا زیادہ ہو، رہنے کی جگہ کے پیسے الگ دینے پڑیں، اوپر سے نشے کو آگ لگی ہوئی ہے تو ہزار روپیہ کہا ں جاتا ہے اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ ویسے یار اگر غور کریں تو ہمیں ایکسٹرا بننے کی ضرورت نہیں، ہم تو پہلے ہی ایکسٹرا ہیں‘‘
’’وہ تمہیں کہاں ملا تھا۔۔۔ ‘‘پپو مزید کریدتا ہے۔
’’ وہ روز فورٹ روڈ پر ہم سے ملنے آتا تھا اور منتیں کرتا تھا کہ ہم بھی اُس کے ساتھ اُس ایجنسی میں چلیں، مگر ہم نشے میں بہت دھت رہتے تھے اس لیے اس کی باتوں پر کان نہیں دھرتے تھے‘‘۔
’’عجیب آدمی ہو تم بھی، اتنی اچھی آفر تم ٹھکرا دیتے تھے؟‘‘ پپو نے جمی کی طرف اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیوں نہ ہم دونوں آج وہاں چلیں، ہو سکتا ہے ہمارے بھی دن پھر جائیں۔‘‘
جمی پپو کو وہاں لے جانے کا وعدہ کرتا ہے۔
’’یہ چھوٹی سی دو منزلہ عمارت ہے جس میں اداکاری سیکھنے والی ایجنسی کھولی گئی ہے۔ علاؤ الدین اچھاانسان ہے، سٹوڈیو والوں کو ایسے ہی لوگ چاہیئے ہوتے ہیں۔ایک دن اُنہیں کسی خاص فلم کی شوٹنگ کیلئے کچھ صحت مند لوگ چاہیئں ہیں تو اگلے دن اُنہیں تین ایسے لوگ چاہیئں ہوں گے جن کے ناک موٹے ہوں اور مجمع دکھانے کیلئے وہ کسی وقت کسی کو بھی لے سکتے ہیں۔ کام دینے کے علاوہ وہ اچھا کھانا بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘ جمی نے پپو کو تفصیل بتانا شروع کی،’’ کام شروع کرنے سے پہلے تمہیں چار مختلف لباسوں میں تصاویر بھی کھنچوانا ہوں گی تاکہ وہ لوگ جان سکیں کہ مختلف حلیوں میں تم کیسے لگتے ہو اور پھر تمہیں ایک موبائل بھی چاہیئے ہو گا تاکہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رابطے میں رہ سکیں اور ’ہیرو‘ تمہیں یہ بتانے کی تو مجھے ہرگز ضرورت نہیں کہ ان چیزوں کیلئے ’’روکڑے‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ پپو کی ذہنی کیفیت ہر لفظ کے ساتھ بدل رہی تھی اور پھر آخر میں اس کا چہرہ اتر گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد دونوں علاؤالدین کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پپو کھلی آنکھوں کے ساتھ رنگ برنگے خواب دیکھ رہا تھا۔ علاؤ الدین کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد پپو اور جمی لکشمی چوک کی طرف جاتے ہیں تاکہ وہ مشہور زمانہ ’’بشیرا دال چاول‘‘ سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سب کچھ کہنے سننے کے بعد پپو سمجھے چکا تھا کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔’’کیا خیال ہے؟ یہاں کوئی بات بن جائے گی؟‘‘ پپو نے پوچھا
’’تمہیں سلطان کے پاس ہی واپس جانا پڑے گا یار۔۔۔‘‘ جمی پپو کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔
’’میں نہیں جانا چاہتا اور ویسے تم اپنے دوست کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے؟ اگر تم اُس سے اجازت لے لو تو میں بھی وہاں پر ہی رہ جاؤں گا‘‘ پپو جمی سے استفسار کرتا ہے۔
’’یار۔۔۔ وہ صرف انیس سال کا ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ نارووال میں رہتا ہے۔ اُس نے ایک پرائیویٹ کالج سے بی اے کی ڈگری لے رکھی ہے، آج کل اس نے روزنامہ جنگ اور جیو ٹی وی کے رپورٹر کے طور پر نوکری شروع کی ہے۔ابھی اس کا کام ’’سیٹ‘‘ نہیں ہوا۔ وہ تو مشکل سے صرف اپنا ہی گزارا کر پاتا ہے۔ ہمیں کہاں سے کھلائے گا۔ پپو یار، مجھے لگتا ہے تمہیں سلطان کے پاس ہی واپس جانا پڑے گا۔ یہیں اُداسی ختم کر کے خوشی خوشی سلطان کے پاس لوٹ جاؤ اور اُس کی ہر بات مانو‘‘جمی پپو کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔
’’جمی، میں یہ نہیں کر سکتا کہ سلطان کی گندی علتوں کو برداشت کروں، دل میں سڑتا کڑھتا رہوں اور پھر سارا دن نشے میں دھت رہوں۔ اگر تم بضد ہو کہ میں ایسا ہی کروں تو پھر تم ایسا کرو، میرے ساتھ رہو۔‘‘ پپو منت سماجت کے انداز میں کہتا ہے۔
’’کیا تم میرا مذاق اُڑا رہے ہو سلطان مجھے کچھ بھی نہ دے گا، وہ بائی ون گیٹ ون فری‘‘ کے مطابق مجھے میرے جسم سے کھیلے گا اور ذلیل و خوار بھی کرے گا‘‘جمی پپو کو سلطان کی خصلت سے آگاہ کرتا ہے۔
تھوڑی دیر کی تکرار کے بعد پپو جمی کو راضی کر لیتا ہے اور وہ اُس کی بات مان کر اُس رات جمی اُس کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے۔
ساری رات جمی بہت بے چین رہتا ہے۔
’’میں کل رات محسوس کر رہا تھا‘‘ جمی نے کہا ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شخص خنجر لے کر میرے جسم کے اندر سے تمام گوشت کاٹ رہا ہو، بالکل ایسے ہی جیسے ہم کسی پھل کے اندر سے سارا گودا نکال کر اُسے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ مجھے بھی اپنے خالی پن کا احساس ہو رہا ہے، بہت تکلیف دہ ہے لیکن مجھے اس بات کا بھی بے حد خوف ہے کہ کچھ کلپ کلپا کر میں ٹھس ہو کر بیٹھ جاؤں گا کیونکہ اس گندے گورکھ دھندے کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہارے بارے میں بھی میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، شاید تم واپس اپنی پچھلی زندگی میں واپس جا سکتے ہو۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ اب اس سب کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے‘‘۔جمی نم آنکھوں سے ساتھ بولے جا رہا تھا۔
’’میرے پاس بھی واپسی کا کوئی راستہ نہیں، میرے والد ایک بہت نیک نام انسان ہیں۔ وہ میرا ’’بوجھ‘‘ نہیں اُٹھا سکتے۔ ان کیلئے میں اب گندگی کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں‘‘ پپو نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
سلطان کے ساتھ رہنا پپو کیلئے ایک کاروبار بن گیا تھا، جیسے ایک رکھیل اپنے سرپرست کو مطمئن کرتی ہے، پپو بھی اُسی طریقے سے سلطان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، جس چیز پر اُس کا ہاتھ پڑتا ہے وہ بھی اپنے آنے والے وقت کیلئے سنبھال لیتا ہے۔
سلطان کے ساتھ رہتے ہوئے اُن کی بہت ساری خواہشات پوری ہونے لگتی ہیں، تصویریں، موبائل فون، خوبصورت اور قیمتی لباس، تقریباً وہ سب ہی چیزیں جو علاؤ الدین سے ملاقات کے دوران اُس نے بتائی تھیں۔
پپو وقتاً فوقتاً کچھ پیسے بھی بچانے شروع کر دیتا ہے کہ اگر اُسے ایک دم چھوڑ کے جانا پڑے تو کم از کم اُس کے پاس کمرے کا کرایہ دینے کے پیسے تو ہوں۔
ایک رات جمی اور پپو دونوں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اپنی جمع جوڑ پونجی کا حساب کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر کہ اُن دونوں کے پاس اتنے پیسے جمع ہو چکے ہیں کہ وہ دو مہینے کا کرایہ آرام سے ادا کر سکتے ہیں، دونوں ایک ساتھ مسکرا اُٹھے۔
’’ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘ جمی پوچھتا ہے۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے جمی‘‘ پپو کہتا ہے۔ اگر ہم نے یہ سب کچھ صرف ایک ہی ہفتے میں اُڑا دیا تو۔۔۔ پھر تو ہمیں الگ ہونے کا بھی فائدہ نہ ہو گا۔ ’’ہمیں ایسا کچھ نہیں کرنا، ہمیں ہمت جمع رکھنی ہے۔‘‘
ایجنسی والا علاؤالدین اُن سے رابطہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ آخری مہینے میں بہت سے ایکسٹرا کے کردار کیلئے لوگوں کی ضرورت ہو گی۔ جمی اور پپو فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں ابھی سے ہی تیاری کر لینی چاہیئے۔
وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آج کل بھی اُنہیں ایسے بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو کلاس روم کی خالی کرسیاں بھر سکیں۔
پپو لکشمی چوک میں ایک کمرہ دیکھتا ہے، جس کے آس پاس سارے نشئی لوگ رہتے ہیں کیونکہ کمرے کا کرایہ کم ہے اس لیے اُسے پسند آ جاتا ہے مگر جمی اُس سے اتفاق نہیں کرتا اور کہتا ہے ’’یہاں تو ہم اپنے آپ کواور برباد کر لیں گے‘‘۔
نوجوانوں کے ایک پروگرام ’’جواں فکر‘‘ میں پپو کو ایکسٹرا کا کردار مل جاتا ہے۔ وہیں پر اُس کی ملاقات ایک لڑکی ثمن سے ہوتی ہے، وہ بھی ایکسٹرا کا کردار کرتی ہے اور پپو کے خیال میں خوبصورت بھی ہے۔ پپو جمی کو یہ سب باتیں بتا رہا ہوتا ہے کہ اُس کا سین ہے۔ یہ سین پپو اور ثمن کے درمیان تھا، جس میں دونوں کے کافی ڈائیلاگ تھے۔
پپو کو ثمن کا ساتھ بہت اچھا لگتا ہے۔ سارا دن وہ اکٹھے ہی نظر آتے ہیں۔ ڈائریکٹر بھی اُن دونوں کو اکٹھے دیکھ کر سوچ لیتا ہے کہ اب وہ ان دونوں کے سین بڑھا دے گا کیونکہ ان دونوں کے درمیان اسے وافر کیمسٹری نظر آتی ہے۔
’’ میری لاٹری نکل آئی ہے‘‘ایک دن پپو خوشی کے عالم میں کہتا ہے۔ لاٹری تب لگتی ہے جب کسی ایکسٹرا سے ڈائریکٹر کچھ خاص کردار ادا کرنے کو کہتا ہے۔
’’ڈائریکٹر نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اُسے بتایا کہ یہ سین ہم سے اچھا تو کوئی کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ جمی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے۔ یہ سنتے ہی پپو کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ جمی اُسے دوسرے سیٹ پر لے کر جاتا ہے۔ یہ ایک گھر کے لونگ روم کی سیٹنگ ہے جس میں ایک پارٹی کا منظر ہے۔ ایک میز پر کھانے کا سامان قرینے سے رکھا ہے اور دوسری سائیڈ پر ایک بڑا ٹی وی اور ویڈیو گیم سے متعلقہ سامان پڑا ہے۔
یہ منظر دیکھ کر پپو کا رنگ یکدم زرد ہو جاتا ہے ۔
’’تمہیں کیا ہوا، تم ایک دم بیمار لگ رہے ہو؟‘‘ ثمن پپو سے پوچھتی ہے۔ پپو کا دل چاہتا ہے اس وقت یہاں سے بھاگ جائے۔
یکایک اُسے سلطان کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آ جاتا ہے اور غصے اور نفرت سے اُس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ ڈائریکٹر باقی سب کرداروں کو بھی بلا لیتا ہے۔ شوٹنگ شروع ہوتی ہے۔ پپو بہت جوش میں ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ گیم نہیں کھیل رہا، سلطان سے اپنا بدلہ لے رہا ہے۔
آخری سین میں وہ تھک چکا ہے۔ شوٹنگ ختم ہونے پر ڈائریکٹر اُسے بہت سراہتا ہے کہ اُس کا کام حقیقت پر مبنی تھا۔
اسی طرح شب و روز گزرتے رہتے ہیں۔ اب ان دونوں کو بھی کام کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔وہ کچھ دن اچھے گزارتے اور کچھ برے۔ کبھی کبھار ایسے بھی دن ہوتے کہ کام کرنے کو بالکل دل نہ چاہتا، بس ہر دم بستر میں گھٹے رہنا اچھا لگتا لیکن پھر یاد آ جاتا کہ بل ادا کرنا زیادہ ضروری ہے اور بل ادا کرنے کیلئے پیسے بھی تو چاہئیں جو کہ صرف کام کر کے ہی کمائے جا سکتے ہیں اور اس خیال کے آتے ہی ساری سستی اور کاہلی کوسوں دور ہو جاتی ہے۔ پہلے پپو کو اپنی زندگی سے نفرت تھی مگر اب اُس کے پاس’’مہذب‘‘ کام دھندہ ہے، جس میں بہت زیادہ تو بچت نہیں ہے مگر ایک عزت کا احساس ہے اور اُس کے ساتھ جمی اور ثمن کی دوستی بھی ہے، جو ہر لمحہ رشتے ناطے میں ہونے کی تسلی دیتی ہے۔
اب جائیے لنک-47 پر۔