لنک-31

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

’’یار جمال! ایک کوک تو پلاؤ ‘‘پپو ریسٹورنٹ کے پرآسائش صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہتا ہے۔
ویٹر جمال کیلئے ٹھنڈی کوک لے کر آتا ہے۔ کوک پینے کے بعد پپو اپنی جیبوں کو ٹٹولتا ہے۔
’’کوئی بات نہیں، بل میں دوں گا۔‘‘ پپو کو جیبیں ٹٹولتے ہوئے دیکھ کر کہتا ہے۔
’’تھینک یو!، جمال‘‘ اور پپو بار میں گھومنا پھرنا شروع کر دیتا ہے۔
اب تک پپو چھ کوک پی چکا ہے، پہلی پانچ بوتلیں وہ کسی اور بار سے پی کر آیا ہے۔ کُم کُم سنیک بار میں گاہک ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ پُر اسرار ریسٹورنٹ جہاں شراب بھی دستیاب ہو، پپو کو بہت پسند ہیں اور ککوزڈین سے تو اُسے دلی لگاؤ ہے۔ پپو یہاں پر اپنی قسمت آزمانے آتا ہے۔

اچانک اسے ڈانس پارٹی والی چاروں لڑکیاں نظر آتی ہیں انہیں دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے۔ پپو اُن سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اسے لفٹ نہیں کراتیں۔ پپو لمبی آہیں بھرتا ہے اور اپنے صوفے پر بیٹھے بیٹھے اپنے پیروں کو زور زور سے زمین پر مارتا ہے۔ وہ سخت بے چین اور شرمندہ نظر آتا ہے۔ آج ہفتے کی شام ہے لیکن ریسٹورینٹ میں وہی باسی چہرے نظر آتے ہیں جو روز یہاں پڑے رہتے ہیں۔

ابتداء میں جب کرینہ نے پپو کو نوکری نہ ہونے پر اپنے اپارٹمنٹ سے نکال دیا تھا تو وہ اِس جگہ وقت گزارنے اور شکار پھانسنے کیلئے آتا رہتا تھا۔ ہفتے کی شام کو یہ جگہ نوجوان لڑکیوں سے بھری ہوتی ہے لیکن آج پپو کو کوئی بھی لفٹ کرانے پر آمادہ نہ تھی۔ زیادہ تر لڑکیاں پپو کی زیرِ لب مسکراہٹ سے باخبر ہیں اور اس کی اوقات جانتی ہیں۔ لوگ نیون سائن بورڈز کی رنگ برنگی روشنیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ریسٹورنٹ میں اکثر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ پپو اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں لوگوں سے ٹکراتا رہا۔ کبھی کبھار تو اُسے اپنا شکار مل جاتا لیکن کبھی وہ چکمہ بھی کھا جاتا۔ اب وہ وقت گزر چکا تھا جب لڑکیاں پپو کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتی تھیں اور اسے ساتھ لے جانے کیلئے پوچھتی تھیں۔

تھوڑی ہی دیر میں اس نے اپنی بے قدری کی پرواہ کرنا چھوڑ دی اسے ایسا لگنے لگا کہ جیسے سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔ اسے احساس ہو گیا کہ وہ یہاں اس لیے آتا ہے کیونکہ اس ریسٹورنٹ کا ڈرگ ڈیلر اور کم کم سنیک بار سے گہرا ربط ہے۔
پپو کی آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ چکے ہیں اور وہ عمر میں بھی بڑا لگ رہا ہے۔ گزرے ہوئے دنوں میں وہ شراب کے نشے میں دھت چنچل لڑکیوں کے چنگل میں پھنسا رہتا تھا۔ پر وہ سب کچھ ماضی کا قصہ تھا۔ وہ کچھ دیر کیلئے سکھ کا سانس لیتا ہے اور پھر سے پرانی تلخ یادوں کو ٹٹولنے لگتا ہے۔

’’بہتر ہے کہ تم چلے جاؤ، میں تمہیں ریسٹورنٹ سے باہر کہیں ملوں گی۔‘‘ایک لڑکی پپو کو ماضی کے جھروکوں سے نکالتے ہوئے کہتی ہے، ’’اپنا سیل فون آن رکھنا۔‘‘ پپو اب بہت گِر چکا ہے۔ پپو خیال کرتا ہے کہ اگر اُسے بہت سارے پیسے مل جائیں تو وہ اُس کے عوض کچھ بھی کر سکتا ہے، اس مقصد کیلئے پپو ہر قسم کے لوگوں کیلئے اپنی خدمات فراہم کرتا ہے تاکہ وہ پیسے میں کھیل سکے۔ وہ کئی راتیں جمال کے ساتھ ہی گزارتا ہے۔

جب وہ زیادہ نشہ کر لیتا ہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ نشہ کے بغیر وہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکتا مصیبت یہ ہے کہ نشے میں وہ کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتا، بس ذلت کے کام کرتا ہے۔ نشے کے آگے پیچھے مایوس رہتا ہے۔ وہ کئی گھنٹوں تک فورٹ روڈ پر قیام کرتا ہے۔ جمال جسے وہ بہت اچھا انسان سمجھتا ہے، نے پپو کو چند سینڈوچ اور کوک وغیرہ پر راضی کر لیا۔ اس کا ذوق اس قدر بگڑ گیا ہے کہ تمام رات ہم جنس پرستوں اور لڑکیوں کے ساتھ رہنا اس کو اچھا لگتا ہے۔

اب اس کی حالت قابل رحم ہے۔ وہ دن بھر نشہ کرتا ہے اور شراب میں دھت ہو کر کسی لڑکی کے ساتھ رات صحیح طرح نہیں گزار سکتا، تو اسے لگتا ہے کہ جیسے اس کی مٹھی سے ریت پھسل رہی ہے اور وہ موقع پر موقع ضائع کر رہا ہے ہر رات پپو پریشانی میں گزارتا ہے۔

اسی ہفتہ دو عجیب واقعات رونما ہوئے۔ پہلے تو اس کا ایک ہم عمر نوجوان سویرا سٹور پر آتا ہے اور اس نے پپو کو رات کے کھانے کی دعوت دی۔

’’تمہیں میں کیا نظر آتا ہوں۔‘‘اس نے لڑکے کی قمیض کو تیزی سے پکڑا اور کہا۔ پھر دونوں کی تلخی ہو گئی۔

دو دن بعد پپو ریسٹورنٹ کے باہر بس کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے تاکہ داتا دربار جا کر لنگر کھا سکے۔ وہ بس سٹاپ پر کوئٹہ سے آئے ہوئے ایک ویٹر سے باتیں کرنے لگتا ہے جو کہ سارا دن اپنے پاؤں پر کھڑا رہا اور اب تھکا ہوا نظر آتا ہے، لہٰذا وہ گھر جانے کی بجائے کسی دوسری نوکری کی تلاش میں ہوتا ہے۔ بس میں سوار ہونے کے بعد وہ دونوں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ کوئٹہ میں اُس ویٹر کی زندگی مفلسی میں گزری اور اب عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کو سن کر پنجابی زبان سیکھنے کی کوشش میں ہے۔ جب وہ بس سے نیچے اترنے لگا تو اس کے چہرے پر پرکشش مسکراہٹ ہوتی ہے۔

اچانک ایک بوتل اس کے سر کو چھوتی ہوئی تیزی سے ریسٹورنٹ کے شیشے سے ٹکراتی ہے، جس پر جمال اُس جانب دیکھ کر غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ایک لڑکی شراب کے نشے میں دھت غل غپاڑہ کر رہی ہے اور یہ لڑکی کچھ جانی پہچانی لگتی ہے۔
’’تم کمینے انسان ہو! میں چاہتی تو تمہیں خس کم جہاں پاک کر دیتی، لیکن میں تمہیں پانی پلا پلا کر ماروں گی۔ تم نے مجھے ایڈز کا مرض دیا۔‘‘ اس کے آنسو نکل آتے ہیں اور وہ لمبی لمبی آہیں بھرنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پپو سے کہتی ہے۔

اس اثناء میں ایک ادھیڑ عمر شخص اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے پپو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

’’اگر یہ لڑکی سچ کہہ رہی ہے تو پھر آئندہ تم مجھے یہاں نظر نہیں آؤ گے اور اگر نظر آئے تھے تمہیں اس دنیا سے کوچ کرنا ہو گا۔

’’تم چلے جاؤ‘‘ وہ دروازے کی طرف اشارہ کر کے جمال کو کہتا ہے۔
پپو شراب کے نشے میں دھت لڑکھڑاتے ہوئے گلی میں چلنا شروع کر دیتا ہے۔ اُسے کسی شخص کے چلّانے کی آواز آتی ہے۔ ایک گاڑی اُس کے پاس آ کر رُکتی ہے اور اس میں سوار شخص پپو کو کہتا ہے۔
’’مجھے مغالطہ لگا ہے میں سمجھا تم کوئی اور ہو‘‘ پپو بغیر پیچھے مڑے لڑکھڑاتا ہوا چل پڑتا ہے۔
دروازہ بند کرنے کے بعد وہ آدمی گاڑی کی رفتار دھیمی رکھ کر ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ پپو اس آدمی کو نہیں جانتا لیکن ایسے بہت سے لوگوں سے اس کاواسطہ پڑتا رہتا ہے۔

’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ دوستانہ انداز میں پپو سے پوچھتا ہے اورآہستہ چلو، تمہیں جلدی کاہے کی ہے؟‘‘
پپو رُکتا ہے اور اسے غور سے دیکھنے لگتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ادھیڑ عمر بزنس مین اس کو غلط کام کیلئے تیار کر رہا ہے۔

’’تم مجھے ڈرے ہوئے معلوم ہوتے ہو۔ آؤ میں تمہیں گھر لے جاؤں اور نہانے کا بندوبست کروں۔ ہم دونوں دوست بن جاتے ہیں، چلو جلدی سے گاڑی میں آ جاؤ۔‘‘ وہ بات جاری رکھتا ہے، ’’میں تمہارا نیا دوست ہوں‘‘۔

پپو سوچتا ہے کہ ان لوگوں نے اس کی بھوک اور تھکاوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھایا، اس کی عزت خاک میں ملا دی اور ایڈز کی بیماری تحفہ میں دی۔ صبح کے وقت صحیح معلوم ہو گا کہ وہ کون ہے اور پھر وہ پیچھے مڑ کر اُس کی گاڑی کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے۔

’’تم جو کر رہے ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی نفع یا نقصان نہیں، پر یہ مزے کا کام ہے۔‘‘ وہ شخص پپو کے گلے میں ہاتھ ڈال کر نرمی سے کہتا ہے۔

اور پھر پپو گاڑی میں سوار ہو جاتا ہے۔ لنک-41 پر جائیے۔

وہ اپنے آپ کو تنہا رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ نشہ کر سکے لنک-42 پر جائیے۔