لنک-9

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا……نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

پپو بس اڈے سے نکل کر منزل مقصود سے بے خبر ایک ویگن میں سوار ہو جاتا ہے جو مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے، پپو بمشکل اپنے لیے اُس میں جگہ بنا پاتا ہے۔

’’یہ ویگن کہاں جا رہی ہے؟‘‘ پپو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک مسافر سے پوچھتا ہے۔
’’مینار پاکستان‘‘ مسافر جواب دیتا ہے۔
کچھ دیر کے بعد کنڈیکٹر پپو کے قریب پہنچتا ہے اور کرائے کا تقاضا کرتا ہے لیکن پپو کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔

’’اگر کرایہ نہیں ہے تو پھر تم نے ویگن میں بیٹھنے کی جرأت کیسے کی؟‘‘ کنڈیکٹر نے پپوکو ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
پپو اس کی ڈانٹ پھٹکار سُن کر پریشان ہوجاتا ہے اور خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔ کنڈیکٹر ویگن رکوا کر پپو کو دھکا دے کر نیچے اُتار دیتا ہے اور پپو فٹ پاتھ پر گر جاتا ہے۔ پپو کا نقاہت کے مارے بُرا حال ہوتا ہے وہ بمشکل اُٹھتا ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے مایوسی کے عالم میں سر جھکائے سڑک کے ایک طرف چلنا شروع کر دیتا ہے۔

پپو کو اس طرح چلتے ہوئے ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے، رات کے اندھیرے گہرے ہونے لگے ہیں، پپو سوچتا ہے کہ اُس کو لاہور میں قدم قدم پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔وہ تمام دن دھوپ میں لاہور کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا تھا اور ابھی تک اُسے کوئی ٹھکانہ میسر نہ آیا۔ پپو کو اپنے والد صاحب کی یہ بات بڑی شدت سے یاد آرہی تھی کہ ’’گھر سے بھاگ جانے والوں کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہوتی۔‘‘ پپو کا پاؤں اچانک فٹ پاتھ پر پھسل جاتا ہے اور وہ ڈھلوان سے لڑھکتا ہوا کانٹے دار جھاڑیوں میں پھنس جاتا ہے۔ پپو اب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ پپو اپنے آپ کو جھاڑیوں سے نکالتا ہے اور سخت کھردی زمین پرلیٹ جاتا ہے۔ پپو کو ہوا ٹھنڈی لگ رہی ہے اور زمین اُس سے بھی زیادہ ٹھنڈی۔ پپو کو بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اُس کو گھر سے بھاگنا نہیں چاہیے تھا۔ وہ سوچتا ہے کہ میری زندگی میں کتنی بے یقینی کی کیفیت ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ میں اب کبھی بھی گھر سے نہیں بھاگوں گا۔

اگر مجھے دوستوں نے بھی مجبور کیا تو بھی میں اُن کی نہیں مانوں گا۔ یہ سوچتے سوچتے کچھ دیر بعد پپو کی آنکھ لگ جاتی ہیں۔ رات کے پچھلے پہر اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے،ابھی اندھیرا ہی چھایا ہوتا ہے اور ٹھنڈ میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ غور کرتا ہے توخود کو زمین پر لیٹا ہوا پاتا ہے، تب اُسے زندہ دفن ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسے خوف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص وہاں پر آ سکتا ہے اور اُس کا گلا کاٹ کر ذبح کر سکتا ہے۔ پپو کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس کا کوئی دوست بھی اُس کا ساتھ دیتا۔ پپو پھر اس طرح کے خیالات میں گُم سوجاتا ہے۔ صبح سورج کے کرنوں کی تپش سے پپو بیدار ہوتا ہے اور جھاڑیوں سے نکل کر دوبارہ فٹ پاتھ پر آجاتا ہے۔

پپو کسی چھپر ہوٹل کی تلاش میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتا ہے تاکہ وہ منہ ہاتھ دھوسکے اور اپنے کپڑوں کو اُتار کر جھاڑ سکے کہ کہیں رات کو جھاڑیوں میں سوتے ہوئے اس کے کپڑوں میں کوئی زہریلا کیڑا تو نہیں گھس گیا جس کے ڈسنے سے اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد پپو کو ایک چھپر ہوٹل کھلا ملتا ہے جس کے باہر موجود ٹوٹے پھوٹے باتھ روم میں جانے کے لیے اُسے کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب پپو جوتے اُتار کر باتھ روم میں داخل ہوتا ہے تو ٹھنڈے فرش کی وجہ سے ایک سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو سنسناتے ہوئے گزر جاتی ہے اور سخت ٹھنڈے پانی کی وجہ سے اس کے دانت میوزک بجانے لگتے ہیں۔ باتھ روم میں تعفن اور بدحالی نمایاں ہے، دیواریں کسمپرسی کا حال بیان کررہی ہیں۔ دیواروں پر بہت گندی گندی باتیں لکھی تھیں، پپو سوچتا ہے کہ جب چیزوں کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو اُن کا یہی انجام ہوتا ہے۔بھوک کے مارے پپو نڈھال ہوجاتا ہے اور اس کے اندر پیٹ کا دوزخ بھرنے اور منہ کا کسیلا ذائقہ دور کرنے کے لیے کچھ کھانے کی طلب ہوتی ہے۔ اس دوران ہوٹل کے عقب سے کسی بھاری بھر کم لوہے کی چیزکے گھسٹنے کی آواز آتی ہے۔ پپو کی عمر کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی، اُس دھات کو کھینچ کر کوڑے کے ڈھیر کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لڑکی پپو سے مدد مانگتی ہے، پپو اُن کی مدد کردیتا ہے اور وہ اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لڑکا سرمئی شلوار قمیض میں ملبوس ہوتا ہے جبکہ لڑکی نے نیلے رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ وہ دونوں جسمانی لحاظ سے پپو سے بھی زیادہ ابتر حا لت میں ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قریبی دوست ہیں۔ وہ دونوں پپو کی حالتِ زار دیکھ کر اُسے بھی اپنے جیسا سمجھنے لگتے ہیں۔ لڑکی پپو سے پوچھتی ہے کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ پپو اُس کو بتاتا ہے کہ وہ مجبوراً اس جگہ آگیا ہے اور اپنے بارے میں سب کچھ اُن دونوں کو بتا دیتا ہے۔

’’میرا نام ’بجلی‘ ہے اور یہ ’پوتنی دا‘ ہے۔‘‘ لڑکی اپنا اور لڑکے کا تعارف کرواتے ہوئے کہتی ہے۔
’’ناموں میں کیا رکھا ہے۔۔۔!‘‘ ’پوتنی دا‘ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں ہاتھ مارتے ہوئے کہتا ہے۔
’’مجھے کل سے اس کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں کوئی کام کی چیز نہیں ملی۔‘‘

وہ پپو کو ساتھ لے کر لاہور میں گھومتے پھرتے ہیں اور ایک حلوائی کی دُکان پر رُک جاتے ہیں، تینوں کا بھوک سے بُرا حال ہوتا ہے۔ ’بجلی‘ انہیں داتا صاحب چلنے کا مشورہ دیتی ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو ایک جگہ ’لنگر‘ تقسیم ہو رہا ہوتا ہے اور لوگوں کا ایک جمِ غفیر دھکم پیل کر رہا ہوتا ہے۔ پوتنی دا، پپو اور بجلی دونوں کو ہجوم میں دھکیل دیتا ہے۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آتے ہیں تو شاپنگ بیگ کھولتے ہیں جس میں چاول ہوتے ہیں۔ تینوں کا بھوک کے مارے بُرا حال ہوتا ہے اس لیے وہ تمام چاول جلدی سے نگل لیتے ہیں۔ اُس کے بعد وہ تینوں لوگوں سے بھیک مانگنے کا منصوبہ بناتے ہیں اور مختلف جگہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پپو کو اُن دونوں کی نسبت زیادہ بھیک ملتی ہے۔

تھوڑی دیر بعد ایک ہٹا کٹا لڑکا غصے سے گالیاں بکتا ہوا پپو کی طرف لپکتا ہے اور اُسے دھکا مار کر ایک جنرل سٹور کی دیوار کے ساتھ لگا دیتا ہے اور بھتہ مانگتا ہے۔ پپو اُس کے غصیلے رویے، کپڑوں سے نکلنے والے تعفن اور سانس کی بدبو سے پریشان ہو جاتا ہے۔

’پوتنی دا‘ اُس ہٹے کٹے بدمعاش لڑکے کو پیچھے ہٹنے کا کہتا ہے اور اُس کو بتاتا ہے کہ پپو اُن کا ساتھی ہے۔ یہ سُن کر ہٹا کٹا لڑکا پپو کو چھوڑ دیتا ہے اور ’پوتنی دا‘ سے معافی مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس نے پپو کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

’پوتنی دا‘ پپو کو تسلی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ علاقہ‘ اُس کاہے اور بھتہ وصول کرنے کا حق صرف اُسی کو ہے۔ پھر وہ پپو سے کہتا ہے کہ آؤ دیکھیں آج ہم نے کتنی کمائی کی ہے؟ پپو چالیس روپے نکالتا ہے جب کہ ’پوتنی دا‘ پندرہ روپے اور ’بجلی‘ ان دونوں کی ریزگاری اپنی جیبوں میں ٹھونسنے لگتی ہے۔ پپو اپنے روپے غائب ہوتے دیکھ کر کہتا ہے کہ اُسے سخت بھوک لگی ہے۔ اس پر ’پوتنی دا‘ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسے ’پکھا بٹیرا‘ کہتا ہے۔ اس دوران پپو ’بجلی‘ سے اُس کے ہاتھ پر پڑے ہوئے دھبوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ جواباً اُن دھبوں کو قسمت کی لکیروں کا نام دیتی ہے۔

رات کے اندھیرے میں ایک سفید رنگ کی وین اُن تینوں کی طرف بڑھتی ہے اور ’پوتنی دا‘ دیوانہ وار چِلّاتا ہے ’’ نئی زندگی! نئی زندگی!‘‘

اُن کے قریب پہنچ کر ویگن کی بریکوں سے چڑچراہٹ اُبھرتی ہے اور ویگن رُک جاتی ہے۔ بجلی وین کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ہے۔ اُس کا خیال ہوتا ہے کہ کھانے کا انتظام ان لوگوں سے ہو جائے گا اور مانگے ہوئے پیسوں سے وہ کشکول خرید سکیں گے۔ویگن کے اندر ایک خاتون موبائل فون پر کسی سے گفتگو کر رہی ہوتی ہے اور اپنی سائیڈ کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے بجلی اور ’پوتنی دا‘ کا حال چال پوچھتی ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ خاتون اُنہیں پہلے سے جانتی ہے۔ وہ خاتون پپو کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور اپنا نام ’مریم‘ بتاتی ہے۔ پھر وہ پپو کے ہاتھ میں سفید کارڈ تھماتے ہوئے اُس کا نام پوچھتی ہے۔ ’بجلی‘بات کاٹتے ہوئے اُس کا نام’پکھا بٹیرا‘ بتاتی ہے اور ساتھ ہی کھانے کے بارے میں پوچھتی ہے۔

ویگن کا ڈرائیور گاڑی کا انجن بند کردیتا ہے اور پچھلے حصے سے کھانے کے ڈبے ان تینوں پکڑاتا ہے۔ پپو جھپٹ کر اپنا ڈبہ پکڑ لیتا ہے اور جلدی جلدی کھانا شروع کر دیتا ہے۔

’’کیا تم کو ہمارے ادارے ’نئی زندگی‘ بارے کچھ علم ہے؟‘‘ مریم پپو سے پوچھتی ہے۔

’’نہیں!‘‘ پپو کھانا کھاتے کھاتے اشارتاً جواب دیتا ہے۔

مریم پپو کو اپنے ادارے ’نئی زندگی‘ بارے تفصیلاً بتاتی ہے کہ اُن کا ادارہ بے گھر بچوں کی صحت کا مرکز اور پناہ گاہ ہے۔ اگر اُسے کسی مدد کی ضرورت ہو تو وہ ٹول فری نمبرپر رابطہ کر سکتاہے اور اگر تم وہ جگہ ابھی دیکھنا چاہو تو ویگن میں جلدی سے بیٹھ جاؤ، عام طور پر مجھے جلدی نہیں ہوتی لیکن ابھی میں نے بس اڈے سے چند اور بچوں کو لینے جانا ہے۔

پپو اس ادارے کے بارے میں جان کر بہت خوش ہوتا ہے اور اپنے کٹے پھٹے جوتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
’’مجھے اُمیدہے کہ تمہارے سائز کے جوتے بھی مل جائیں گے، آؤ اندر بیٹھ جاؤ‘‘ خاتون پپو کے جوتوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔

بجلی‘ پپو کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے جانے سے روکنا چاہتی ہے لیکن ۔۔۔

پپو ویزٹنگ کارڈ لیتا ہے اور بعد میں فون کرنے کاارادہ ظاہر کرتا ہے۔ لنک-12 پر جائیے۔
پپو ویگن میں سوار ہوجا تاہے۔ لنک-17 پر جائیے۔