اس میں ڈاکٹر صداقت علی نے نشے کے مریض کی فیملی کو علاج میں ان کی اہمیت، اور ان کے اہم اقدام کو نہایت ہی عمدہ انداز سے بیان کیا ہے۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ:
کسی بھی ادارے میں تبدیلی لانے کے لئے یا کسی ملک میں تبدیلی لانے کے لئے یا کسی ایسے شخص کی جو کہ نشہ کرتا ہے زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے آپ کو لیڈر شپ فراہم کرنا پڑتی ہے. اس کو رہنمائی فراہم کرنی ہوتی ہے. اسی طرح گھر میں بھی جب کوئی پیارا نشے کی بیماری میں یا شراب نوشی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کو بھی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے. جو کہ گھر والے فراہم کرتے ہیں. اس کے لیے ضروری ہے کہ لیڈرشپ جینیون اور اوتھنٹک ہو تو ہی بات بن پائے گی. لیڈر شپ اچھے اور برے دونوں کاموں میں فراہم کی جا سکتی ہے لیکن اس کے اصول تقریباََ ایک جیسے ہی رہتے ہیں. مثال کے طور پر کسی بھی ادارے کا سی ای او اپنے ماتحت لوگوں کو لیڈر شپ فراہم کرتا ہے تو اسی طرح باہر کوئی ڈاکوؤں کا گروپ ہو تو اس کا بھی ایک لیڈر ہوگا جو کہ اپنے گروہ کو لیڈر شپ فراہم کرے گا. جب بھی کوئی لیڈر، لیڈر شپ فراہم کرتا ہے تو اس کا مستند ہونا بہت ضروری ہے اس کے کہنے اور کرنے میں تضاد نہیں ہونا چاہیے. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اقوال زریں پیش کرے، ہو سکتا ہے کہ اس کے قول ہی غلط ہوں لیکن جو بھی اس کے قول ہوں اس کا عمل اسی لائن میں ہونا چاہیے. اگر کوئی منفی باتیں کرتا ہے تو اس کا عمل بھی اسی کی طرف جانا چاہیے یہی لیڈر شپ کی نشانی ہیں. اسی لئے جتنے لوگ غلط اور صحیح کام کرتے ہیں اس میں سے بھی کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہوتے ہیں۔
ابراہم میسلو کے گھر میں ایک پیارا ایڈکشن کا شکار ہوگیا اور اس نے چند سال چُھپ کر ڈرگز کا دھندا کیا اور چُھپ کر نشے کا استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ اس کے اہل خانہ کو کافی عرصہ پتا نہ چلا. اور پھر ایک دن اس کا بھانڈا پُھوٹ گیا اور اس کے اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ کرتا ہے، اس کے حالات کافی خراب ہیں، اس کا کاروبار تباہ ہوگیا، اس کے گریڈز کم آتے ہیں. اور یہ بات سننے کے بعد اہل خانہ پر قیامت بیت جاتی ہے. اور دو طرح کے جذبے ان کے خاندان کے اندر اُبھر کر آتے ہیں پہلا غم اور دوسرا غصہ. اور جب ہم غم و غُصے میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ہماری ذہانت سب بہت اچھی طرح کام نہیں کرتیں. اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم اسے سیدھے رستے پر واپس لے آئیں گے ہمیں اپنے اندر بہت توانائی سی محسوس ہوتی ہے. اور دوسری طرف ہمیں اپنے اندر شیم بھی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کسی کو بتائیں گے تو یہ بہت شرم کی بات ہے ہم خود ہی اس کو سیدھے راستے پر لائیں گے. اور جب وہ اس موضوع پر اپنے پیارے سے بات کرتے ہیں تو وہ نیک اور اچھے ارادے کا اظہار کرتا ہے. تو اہل خانہ بہت ہی زیادہ خوش ہوجاتے ہیں امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ یہ سب وعدے جو کہ توڑنے ہی ہوتے ہیں، توڑدیتا ہے تو اہل خانہ بہت زیادہ غصے میں آ جاتے ہیں اور ان کے حوصلے خاک میں مل جاتے ہیں اور وہ اس کو کافی برا بھلا کہتے ہیں اور ان کے منہ سے کچھ ایسی باتیں بھی نکلتی ہیں جن پر وہ بعد میں تھوڑا نادِم بھی ہوتے ہیں اور اس پر بعد میں کچھ قیمت بھی ادا کر دیتے ہیں. اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
کچھ مستند رویے ایسے ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں تسلیم شدہ مستند رویے ہوتے ہیں جن کو ہم بیسٹ پریکٹیسیس بھی کہتے ہیں. وہ بار بار دنیا کے مختلف ملکوں میں دہرائے جاتے ہیں اور ان کو پھر کامیابی کے لحاظ سے پرکھا جاتا ہے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ روئیے ہمیشہ سو فیصد نتائج دیتے ہیں اور یہ رویے ہر فیلڈ میں پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر جس طرح دل میں اسسٹنٹ ڈالے جاتے ہیں تو دنیا بھر میں ایک ہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے بائی پاس بھی کیے جاتے ہیں اور دل میں سٹنٹ بھی ڈالے جاتے ہیں یعنی یہ ایک بیسٹ پریکٹس ہے. جو کہ پوری دنیا میں ایک ہی طریقے سے کی جاتی ہے۔
ایڈکشن اور الکوحلزم سے ریکوری میں بھی بیسٹ پریکٹسز سامنے آچکی ہیں اور ان میں جو مستند رویے ہیں جو کہ کہا جاتا ہے کہ فیملی کو اختیار کرنے چاہئیں ان میں سب سے پہلا رویہ یہ ہے کہ فیملی کو بتایا جاتا ہے کہ مریض کو اپنے نشے کے منفی نتائج خود بھگتنے چاہیے. ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ نشے کے مزے تو مریض لیتا رہے لیکن اس کے منفی نتائج اس کی فیملی برداشت کرے. کیونکہ اس طرح مریض کو کبھی بھی یہ معلوم نہیں ہوگا کہ جو نشہ وہ کرتا ہے وہ دراصل ایک بری چیز ہے. اور اگر فیملی یہ مستند رویہ نہیں اپناتی تو یہ مریض کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جو نشہ وہ استعمال کرتا ہے اس کے نقصانات بہت زیادہ ہے۔
دوسری بیسٹ پریکٹس یہ ہے کہ جہاں بھی غلط ہوتا دیکھیں تو ایک صحیح فورم پر اس کی آواز اُٹھائیں. اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مریض کو بدنام کریں لیکن اس خوف سے بھی نِکل آئیں کہ وہ بد نام ہوگا کیوں کہ بد نام تو اس نے ہونا ہی ہے اور اپنے کئے سے ہونا ہے. نا آپ کسی کو بد نام کریں اور نہ آپ کسی کو بدنامی سے بچائیں کیونکہ جو نشہ استعمال کرنے کے قدرتی نتائج ہے وہ آپ اپنے مریض کو برداشت کرنے دیں. کیونکہ اگر نشے کے استعمال سے کسی کو تکلیف ہونی چاہیے تو وہی بندہ ہے جس نے اس کا مزہ بھی اٹھایا ہے تاکہ اس کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اس بیماری کے صرف مزا ہی نہیں تکلیفیں بھی بہت ہے اور اس کو ترازو کے ان دو پلڑوں کو دیکھنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے کہ اس بیماری میں مزہ آتا ہے تو تکلیفیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نشے کا مریض نشے میں دھت ہو کر رات کو گھر آتا ہے اور باتھ روم میں جا کر گِر جاتا ہے اور اُلٹیاں بھی کر رہا ہوتا ہے تو فیملی میں اس کی ماں اس کی بہنیں یا اس کی بیوی اس کو اس حالت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتے اور وہ جا کر نہ صرف اس کا پھیلایا ہوا گند صاف کرتے ہیں بلکہ اس کو بھی صاف ستھرے کپڑوں میں بستر پر لاکر سُلا دیتے ہیں. اور اگلے دن جب اْٹھتا ہے تو اس کو پِچھلا کچھ یاد نہیں ہوتا کہ وہ کس حالت میں کہ گرا ہوا تھا اور کیسے اپنے بستر تک آیا. اس حال میں مریض سے کیسے امید لگائی جاسکے کہ وہ اپنا رویہ بدلے یا وہ اس چیز پر نادم ہو جو کہ اس نے کیا. مگر اس کے برعکس اپنے کیے کے نتائج خود بھگتنے دیے جائیں اور اس کی بلاوجہ معاونت نہ کی جائے تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وہ اپنے کیئے پر نادم ہوں. بہترین صورت حال یہ ہے کہ جتنی جلدی آپ نشے کے مریض کے اندر یہ آگاہی پیدا کردیں گے کہ وہ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اتنی ہی جلدی وہ علاج کے اندر آنا چاہے گا اور اتنے ہی بہتر نتائج نکلیں گے۔
فیملی ڈیفالٹر کا سٹانس اس وجہ سے لیے ہوتی ہے کہ مریض ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے جس میں وہ چار طرح کے حربے استعمال کر رہا ہوتا ہے جس سے فیملی اپنے آپ کو ڈیفالٹر سمجھنے لگتی ہے۔
یہ سب آپ کا قصور ہے آپ نے مجھے بچپن میں پیار نہیں دیا آپ نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے. میرے بہن بھائیوں کو یہ اور وہ آسائشیں دی ہیں اور مجھے فلاں موقع پر یہ چیزیں نہیں ملی اسی لیے اصل میں قصوروار آپ ہیں۔ اور جب بار بار وہ فیملی سے یہ بات کرتا ہے تو فیملی گلٹی محسوس کرتی ہے۔
دوسرا ہربہ جو مریض استعمال کرتا ہے وہ یہ کہ میں بیچارا میں ہی پسماندہ رہ گیا میرے بہن بھائی پڑھ گئے. میرے ہم عمر لوگ دو دو بچوں کے باپ ہیں میری تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی میں بچارا میں بچارا. اور اس بات سے بھی فیملی گلٹ میں چلی جاتی ہے کہ شاید ہماری ہی بے دیہانی کی وجہ سے یہ نہیں پڑھ لکھ سکا. عباس صورت میں مریض کا رنگ روپ اس کے کپڑے اس کی اپنی بیماری کی وجہ سے جو کہ نشے کی بیماری ہے اس وجہ سے خراب ہو جاتی ہے اور گھر والے یہ سمجھتے ہیں ہماری غلطی کی وجہ سے یہ سزا بھگت رہا ہے۔
چیز جو کہ وہ کرتا ہے وہ دھمکیاں ہیں وہ ہر چھوٹی بڑی بات پر اپنی فیملی کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر ایسا کیا اگر میرا گورکھ دھندہ بند کرنے کی کوشش کی تو پھر دیکھنا میں کیا کرتا میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا یا میں اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچا لوں گا. وہ اپنے بازو پر کٹ لگا کر دکھاتا ہے، اپنے آپ کو چھوٹے موٹے نقصان پہنچا کر دِکھاتا ہے کہ اگر میرے ساتھ یہ کیا یا میری مرضی کی کوئی چیز مجھے نہ لے کر دی تو پھر میں اپنے آپ کو نقصان ہی پہنچاوں گا. اور پھر اتنے کچوکے لگا کر وہ یکدم مرہم رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کو بتاؤں میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں عنقریب نشہ چھوڑ دوں گا، اور یکدم فیملی کی آنکھوں کے آگے ستارے چمکنے لگتے ہیں اور وہ خوشی سے کہتے ہیں کہ دیکھو اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ نشہ چھوڑ دے گا. اس نے وہ بات کہی ہے کہ جس سے ہماری تمنائیں جڑی ہوئی تھی. ساتھ ہی وہ فرمائشی پروگرام شروع کرتا ہے کہ چلے دیکھی نشہ تو چھوڑ ہی دوں گا فی الحال 25000 روپے دے دیں. اور فیملی والے بھی اتنے خوشی کے لمحے میں پھولے نہ سماتے ہوئے اس کی فرمائش پوری کر دیتے ہیں۔
چوتھا طریقہ یہ کہ مریض اپنے ہی گھر والوں کو اس طریقے اپنے سانچے میں ڈھالتے ہیں کہ انہی کے ذریعے منشیات لیتے رہتے ہیں. اور پھر یہ ہوتا ہے کہ مریض گھر میں ہی نشہ کرتا رہتا ہے اور وہ گھر والوں سے کہتا ہے کہ مجھے اپنی مرضی کی مقررہ مقدار دے دیا کریں اپنے ہی ہاتھوں سے. اور اس طرح میں گھر میں ہی آپ کے سامنے نشہ کیا کروں گا اور مجھے باہر بھی نہیں جانا پڑے گا. اور اکثر اوقات گھر والے اپنی معصومیت کی وجہ سے اس بات کو بھی ماننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور معاملہ مزید بِگڑتا رہتا ہے۔
والدین کے لیے یہی چند ایک رویے ہیں جن کو سمجھنے کی اِنہیں ضرورت ہے، اگر ان کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہے اور وہ ایک دم کسی ماہر نفسیات کے پاس جانے سے جِھجک محسوس کرتے ہیں تو اکیسویں صدی میں رہنے کا یہ فائدہ ہے نا کہ آپ اپنی تنہائی میں رونے دھونے کی بجائے اپنا مسئلہ اگر گوگل پر لکھ دیتے ہیں تو آپ کے سامنے معلومات کا ایک جہاں آباد ہوجاتا ہے اور آپ کو سرنگ کے اْس پار روشنی نظر آنے لگ جاتی ہے، آپ پُر امید ہوجاتے ہیں. اسکی بنیادی وجہ تو یہی ہوتی ہے کہ آپ اسکی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اسکے لیے آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ چند ایک مضبوط اقدام اْٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تحریر: حفصہ شاہد کلینکل سائیکالوجسٹ
خیالات: ڈاکٹر صداقت علی